اسلام آباد: قومی اسمبلی کے سیکیورٹی اجلاس میں ملک میں جاری دہشت گردی اور امن و امان کی صورت حال پر تفصیلی غور کیا گیا۔ اجلاس کے دوران سیاسی و عسکری قیادت نے متفقہ طور پر اس بات پر زور دیا کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قومی یکجہتی اور متحدہ سیاسی حکمت عملی ناگزیر ہے۔
اجلاس کی صدارت اور شرکاء
قومی اسمبلی کے اسپیکر کی سربراہی میں ہونے والے اس اجلاس میں وزیراعظم، اپوزیشن رہنما، اعلیٰ عسکری حکام اور قومی سلامتی کے ماہرین نے شرکت کی۔ اجلاس میں ملک کی مجموعی سیکیورٹی صورت حال، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرات، اور انسداد دہشت گردی کے اقدامات پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اہم نکات اور فیصلے
اجلاس میں درج ذیل نکات پر اتفاق کیا گیا:
دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہونا ہوگا۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کو مزید وسائل اور جدید ٹیکنالوجی فراہم کی جائے گی۔
دہشت گردی میں ملوث عناصر کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کی جائے گی۔
نیشنل ایکشن پلان پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے گا۔
تمام صوبوں میں سیکیورٹی انتظامات کو مزید مؤثر بنایا جائے گا۔
متحدہ سیاسی حکمت عملی کی ضرورت
اجلاس کے دوران تمام جماعتوں نے اس بات پر زور دیا کہ سیاسی اختلافات کو پس پشت ڈال کر ملک کے وسیع تر مفاد میں ایک مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے۔ اپوزیشن رہنماؤں نے حکومت پر زور دیا کہ وہ سیکیورٹی پالیسیوں میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرے تاکہ قومی یکجہتی کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔
حکومتی موقف اور بیانات
وزیراعظم نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
“دہشت گردی کے خلاف جنگ کسی ایک جماعت یا ادارے کی نہیں، بلکہ پوری قوم کی ہے۔ ہمیں متحد ہو کر دشمن عناصر کا خاتمہ کرنا ہوگا۔“
وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جا رہے ہیں، اور جلد
ہی ایک جامع سیکیورٹی پالیسی متعارف کرائی جائے گی۔
ماہرین کی رائے
قومی سلامتی کے ماہرین کے مطابق، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ سیاست کو سیکیورٹی معاملات سے الگ رکھا جائے۔ اگر تمام جماعتیں اور ادارے ایک متحدہ لائحہ عمل اپنائیں تو دہشت گردی کے خطرات کو نمایاں طور پر کم کیا
جا سکتا ہے۔
نتیجہ
قومی اسمبلی کے اس اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشت گردی کے خلاف قومی اتحاد ناگزیر ہے۔ سیاسی استحکام اور مشترکہ سیکیورٹی حکمت عملی ہی پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے کا واحد راستہ ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ حکومت اور ا
پوزیشن عملی طور پر کس حد تک یکجا ہو کر کام کرتے ہیں۔