چلاس میں زہریلا افطار کھانے سے دو بچے جاں بحق

چلاس میں زہریلا افطار کھانے سے دو بچے جاں بحق

چلاس:

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے علاقے چلاس میں افطار کے دوران زہریلا کھانا کھانے سے دو معصوم بچے جان کی بازی ہار گئے جبکہ خاندان کے دیگر افراد کی حالت بھی تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔ یہ افسوسناک واقعہ مبینہ طور پر خوراک میں زہریلے مواد کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا۔

واقعے کی تفصیلات

مقامی ذرائع کے مطابق، متاثرہ خاندان نے افطار کے وقت گھر میں تیار کردہ کھانا کھایا، جس کے فوراً بعد بچوں اور چند دیگر افراد کو الٹی، سر چکرانے، اور پیٹ درد کی شکایات ہونے لگیں۔ طبیعت بگڑنے پر انہیں فوری طور پر قریبی اسپتال منتقل کیا گیا، مگر بدقسمتی سے دو بچے جانبر نہ ہو سکے۔

ابتدائی تحقیقات میں کیا انکشاف ہوا؟

حکام کا کہنا ہے کہ کھانے میں ممکنہ طور پر کوئی زہریلا مادہ موجود تھا جو فوڈ پوائزننگ کا سبب بنا۔ مقامی پولیس اور محکمہ صحت نے واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے، اور متاثرہ کھانے کے نمونے لیبارٹری بھیج دیے گئے ہیں تاکہ اصل وجہ معلوم کی جا سکے۔

متاثرہ خاندان کی حالت

  • دو بچوں کی اموات واقع ہو چکی ہیں
  • دیگر افراد شدید متاثر ہیں اور اسپتال میں زیر علاج ہیں
  • ڈاکٹروں کے مطابق خوراک میں ملاوٹ یا زہریلے مواد کا امکان موجود ہے

زہریلے کھانوں کے خطرات اور ماہرین کی رائے

ماہرین صحت کے مطابق، ناقص اور غیر معیاری اشیائے خورد و نوش کی وجہ سے فوڈ پوائزننگ کے واق

عات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ خاص طور پر رمضان المبارک میں، جہاں لوگ بازار کے کھانوں اور سستا فوڈ آئٹمز کا استعمال زیادہ کرتے ہیں، وہاں صحت کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔

حکومتی ردعمل اور عوام کے لیے ہدایات

ضلعی انتظامیہ نے اس واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے متعلقہ حکام کو ذمہ داروں کا تعین کرنے اور سخت کارروائی ک

رنے کا حکم دیا ہے۔ عوام کو بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ:
گھریلو اور بازار کے کھانے کی صفائی اور معیار پر خاص توجہ دیں
دیر سے پکایا گیا کھانا دوبارہ کھانے سے گریز کریں

ناقص اور غیر معیاری خوراک خریدنے سے بچیں

فوڈ پوائزننگ کی علامات ظاہر ہوتے ہی فوری طبی امداد حاصل کریں

نتیجہ

چلاس میں پیش آنے والا یہ المناک واقعہ ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی کرتا ہے کہ غیر معیاری کھانے کس طرح جان لیوا ث

ابت ہو سکتے ہیں۔ ضروری ہے کہ حکومت فوڈ سیفٹی کے قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروائے تاکہ مستقبل می

ں اس طرح کے مزید واقعات سے بچا جا سکے۔

Comments

No comments yet. Why don’t you start the discussion?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *